Friday, 1 July 2011

SIRF ALLAH HY ALIM UL GAIB

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com





AALIM UL GHAIB SIRF ALLAH KI ZAAT QURAN KI ROSHNI MAIN…………

(سورة البقرة)

قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ   ۚ  فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕهِمْ    ۙ  قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ  33؀

(تب) خدا نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں! میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے؟
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة المآئدہ)

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ  ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا  ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ    ١٠٩؁

(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا؟وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ توہی غیب کی باتوں سے واقف ہے ۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة النعام)

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ  ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ    59؀

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاوں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں چھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانا اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ  ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ  ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ   73؀

اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو تدبیر سے پیدا کیا ہے اور جس دن وہ فرمائے گا کہ ہو جا تو (حشربرپا) ہو جائے گا۔ اسکا ارشاد برحق ہے۔ اور جس دن صور پھونکا جائے گا (اس دن) اسی کی بادشاہت ہو گی۔ وہی پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے والا ہے اور وہی دانا اور خبردار ہے۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI







(سورة التوبہ)

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ     78؀ۚ

کیا ان کو معلوم نہیں کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے اور یہ کہ وہ غیب کی باتیں جاننے والا ہے؟
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ  ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ    ١٠٥؀ۚ

اور (ان سے) کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب وحاضر کے جاننے والے (خدائے واحد) کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو (سب) تم کو بتائے گا۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة یونس)

وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ  ۚ فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوْا ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ     20۝ۧ

اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی؟ (١) سو آپ انہیں فرما دیجئے کہ غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے (٢) سو تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة ھود)

وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ      ١٢٣؀ۧ

اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھر وسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

(سورة الکهف)

قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا  ۚ لَهٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ اَبْصِرْ بِهٖ وَاَسْمِعْ  ۭ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ  ۡ وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا    26؀

کہہ دو کہ چتنی مدت وہ رہے اسے خدا ہی خوب جانتا ہے اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں معلوم ہیں وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے اس کے سوا انکا کوئی کارساز نہیں اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

(سورة فاطر)

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ 38؀

بے شک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة سبأ)

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ  ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ۙ عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ   Ǽ۝ڎڎ

اور کافر کہتے ہیں کہ (قیامت کی) گھڑی ہم پر نہیں آئے گی کہہ دو کیوں نہیں (آئے گی) میرے پروردگار کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی (وہ پروردگار) غیب کا جاننے والا (ہے) ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں (نہ) آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور کوئی چیز ذرے سے چھوٹی یا بڑی ایسی نہیں مگر کتاب روشن (لکھی ہوئی) ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI


(سورة الحجرات)

اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ        18؀ۧ

بے شک خدا آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI









TWENTY THREE

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # TWENTY THREE :-

(سورة المآئدہ)
  يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ۭعَفَا اللّٰهُ عَنْهَا  ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ    ١٠١؁

مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (١) سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے۔
MOULANA JONAH GARHE

اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جاویں گی ف٧ اللہ نے ان سے درگزر کی ہے ف ٨ اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں (ف۲٤۳) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی، اللہ انہیں معاف کرچکا ہے (ف۲٤٤) اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN



TAFSIR


TAFSEER IBAN E KASEER
رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات
 مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ، پھر اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بےفائدہ سوالات مت کیا کرو، کرید میں نہ پرو، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو ، صحیح بخاری شریف میں حصرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بےمثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں ، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا خزافہ ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بےآبروئی ہوتی ، آپ نے فرمایا سنو ماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا ، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا حذافہ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو، جو پوچھو گے، بتاؤں گا، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالٰی آپ سے درگزر فرمائے، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ جب آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3۔آل عمران:97) نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے ، پس اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی ، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں ، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالٰی نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی ، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالٰی نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالٰی نے کی ہے ، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالٰی نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر حج فرض کر دیا ہے ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہدیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، پاس اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ، اللہ تعالٰی فرماتا ہے آیت (وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ) 17۔الاسراء:59) یعنی معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں اور آیت میں ہے آیت (وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا  ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ) 6۔الانعام:109) بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بےعلم ۔

TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
١٠١۔١ یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کر دی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)


MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٧ پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔ ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فضول اور دوراز کار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے۔ اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔ خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کر دیا وہ حلال یا حرام ہوگئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔ مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے۔ اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خواہ مخواہ کھود کرید اور بحث وسوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہو رہا ہے اور تشریع کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائش اجتہاد باقی نہ رہے۔ پھر یہ سخت شرم کی بات ہوگی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں۔ سنت اللہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب کسی معاملہ میں بکثرت سوال اور کھود کرید کی جائے اور خواہ مخواہ شقوق اور احتمالات نکالے جائیں تو ادھر سے تشدید (سختی) بڑھتی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کے سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ گویا سائلین کو اپنے نفس پر بھروسہ ہے اور جو حکم ملے گا اس کے اٹھانے کے لئے وہ بہمہ وجوہ تیار ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ جو بندہ کے ضعف و افتقار کے مناسب نہیں، مستحق بنا دیتا ہے کہ ادھر سے حکم میں کچھ سختی ہو اور جتنا یہ اپنے کو قابل ظاہر کرتا ہے اسی کے موافق امتحان بھی سخت ہو۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے "ذبح بقرہ" والے قصہ میں ایسا ہی ہوا۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگوں خدا نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص بول اٹھا کیا ہر سال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اگر میں (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا پھر تم ادا نہ کر سکتے، جس چیز میں تم کو "آزاد" چھوڑوں تم بھی مجھ کو چھوڑ دو۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ مسلمانوں میں وہ شخص بڑا مجرم ہے جس کے سوالات کی بدولت ایسی چیز حرام کی گئی جو حرام نہ تھی۔ بہر حال یہ آیت احکام شرعیہ کے باب میں اس طرح کے دورازکار اور بےضرورت سوالات کا دروازہ بند کرتی ہے۔ باقی بعض احادیث میں جو یہ مذکور ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جزئی واقعات کے متعلق لغو سوال کرتے تھے ان کو روکا گیا وہ ہماری تقریر کے مخالف نہیں۔ ہم "لاَ تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ " میں "اشیآء" کو عام رکھتے ہیں جو واقعات و احکام دونوں کو شامل ہے اور "تَسُؤْکُمْ " میں بھی جو برا لگنے کے معنی پر مشتمل ہے تعمیم رکھی جائے۔ حاصل یہ ہوگا کہ نہ احکام کے باب میں فضول سوالات کیا کرو اور نہ واقعات کے سلسلہ میں کیونکہ ممکن ہے جو جواب آئے وہ تم کو ناگوار ہو مثلاً کوئی سخت حکم آیا یا کوئی قید بڑھ گئی۔ یا ایسے واقعہ کا اظہار ہوا جس سے تمہاری فضیحت ہو، یا بیہودہ سوالات پر ڈانٹ بتلائی گئی، یہ سب احتمالات تَسُؤْکُمْ کے تحت میں داخل ہیں۔ باقی ضروری بات پوچھنے یا شبہ ناشی عن دلیل کے رفع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ف ٨ یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی، یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا۔ چنانچہ اسی سے بعض علمائے اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے اور یا یہ کہ ان فضول سوالات سے جو پہلے کر چکے ہو اللہ نے درگزر کی آئندہ احتیاط رکھو۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
((ف243) شان نزول : بعض لوگ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے بےفائدہ سوال کیا کرتے تھے یہ خاطرِ مبارک پر گراں ہوتا تھا ، ایک روز فرمایا کہ جو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرو میں ہر بات کا جواب دوں گا ، ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا انجام کیا ہے ؟ فرمایا جہنم ، دوسرے نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے اس کے اصلی باپ کا نام بتا دیا جس کے نطفہ سے وہ تھا کہ صداقہ ہے باوجود یکہ اس کی ماں کا شوہر اور تھا جس کا یہ شخص بیٹا کہلاتا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو جو ظاہر کی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں ۔ (تفسیرِ احمدی) بخاری و مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ فرماتے ہوئے فرمایا جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ، عبد اللہ بن حُذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا حذافہ پھر فرمایا اور پوچھو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے اٹھ کر اقرارِ ایمان و رسالت کے ساتھ معذرت پیش کی ۔ ابن شہاب کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن حُذافہ کی والدہ نے ان سے شکایت کی اور کہا کہ تو بہت نالائق بیٹا ہے تجھے کیا معلوم کہ زمانہ جاہلیّت کی عورتوں کا کیا حال تھا ، خدا نخواستہ تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی ، اس پر عبد اللہ بن حُذافہ نے کہا کہ اگر حضور کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتا دیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ لوگ بطریق اِستِہزاء اس قِسم کے سوال کیا کرتے تھے ، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ، کوئی پوچھتا میری اونٹنی گم ہو گئی ہے وہ کہاں ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا ، اس پر ایک شخص نے کہا کیا ہر سال فرض ہے ؟ حضرت نے سکوت فرمایا ، سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ احکام حضور کو مُفوَّض ہیں ، جو فرض فرما دیں وہ فرض ہو جائے نہ فرمائیں نہ ہو ۔
(ف244) مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس امر کی شرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ، حرام وہ ہے جس کو اس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف تو کُلفت میں نہ پڑو ۔ (خازن)

TWENTY TWO

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com







AYAT # TWENTY TWO :-

(سورة آل عمران)
وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ  ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ   49؀ۚ

اور (عیسی) بنی اسرائیل کی طرف سے پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) میں تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پرندہ بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہوجاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردے میں جان دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لئے (قدرت) خدا کی نشانی ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

اور وہ بنی اسرائیل کی طرف سے رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں (١) پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر لیتا ہوں اور مردے کو جگا دیتا ہوں (٢) اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان لانے والے ہو۔
MOULANA JONAH GARHE

اور کریگا اس کو پیغمبر بنی اسرائیل کی طرف بیشک میں آیا ہوں تمہارے پاس نشانیاں لے کر تمہارے رب کی طرف سے ف٤ کہ میں بنا دیتا ہوں تم کو گارے سے پرندہ کی شکل پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو ہو جاتا ہے وہ اڑتا جانور اللہ کے حکم سے ف ٥ اور اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور جِلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے ف ٦  اور بتا دیتا ہوں تم کو جو کھا کر آؤ اور جو رکھ آؤ اپنے گھر میں ف٧ اس میں نشانی پوری ہے تم کو اگر تم یقین رکھتے ہو
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف، یہ فرماتا ہو کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں (ف۹۹) تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے (ف۱۰۰) اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو (ف۱۰۱) اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے (ف۱۰۲) اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو، (ف۱۰۳) بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN

TAFSIR

TAFSEER IBAN E KASEER
فرشتوں کا مریم سے خطاب
 فرشتے حضرت مریم سے کہتے ہیں کہ تیرے اس لڑکے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم لکھنا سکھائے گا حکمت سکھائے گا لفظ حکمت کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے، اور اسے توراۃ سکھائے گا جو حضرت موسیٰ بن عمران پر اتری تھی اور انجیل سکھائے گا جو حضرت عیسیٰ ہی پر اتری، چنانچہ آپ کو یہ دونوں کتابیں حفظ تھیں، انہیں بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجے گا، اور اس بات کو کہنے کے لئے کہ میرا یہ معجزہ دیکھو کہ مٹی لی اس کا پرندہ بنایا پھر پھونک مارتے ہی وہ سچ مچ کا جیتا جاگتا پرند بن کر سب کے سامنے اڑنے لگا، یہ اللہ کے حکم اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب تھا، حضرت عیسیٰ کی اپنی قدرت سے نہیں یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کا نشان تھا، اکمہ اس اندھے کو کہتے ہیں جسے دن کے وقت دکھائی نہ دے اور رات کو دکھائی دے، بعض نے کہا اکمہ اس نابینا کو کہتے ہیں جسے دن کو دکھائی دے اور رات کو دکھائی نہ دے، بعض کہتے ہیں بھینگا اور ترچھا اور کانا مراد ہے، بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے بالکل اندھا پیدا ہوا ہو، یہاں یہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں معجزے کا کمال یہی ہے اور مخالفین کو عاجز کرنے کے لئے اس کی یہ صورت اور صورتوں سے اعلیٰ ہے، ابرص سفید دانے والے کوڑھی کو کہتے ہیں ایسی بیمار بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ اچھے کر دیتے تھے اور مردوں کو بھی اللہ عزوجل کے حکم سے آپ زندہ کر دیا کرتے تھے، اکثر علماء کا قول ہے کہ ہر ہر زمانے کے نبی کو اس زمانے والوں کی مناسبت سے خاص خاص معجزات حضرت باری غراسمہ نے عطا فرمائے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا اور جادو گروں کی بڑی قدرو تعظیم تھی تو اللہ تعالٰی نھے آپ کو وہ معجزہ دیا جس سے تمام جادوگروں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حیرت طاری ہو گئی اور انہیں کامل یقین ہو گیا کہ یہ تو الہ واحد و قہار کی طرف سے عطیہ ہے جادو ہرگز نہیں چنانچہ ان کی گردنیں جھک گئیں اور یک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور بالاخر اللہ کے مقرب بندے بن گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طبیبوں اور حکیموں کا دور دورہ تھا۔ کامل اطباء اور ماہر حکیم علم طب کے پورے عالم اور لاجواب کامل الفن استاد موجود تھے پس آپ کو وہ معجزے دے گئے جس سے وہ سب عاجز تھے بھلا مادر زاد اندھوں کو بالکل بینا کر دینا اور کوڑھیوں کو اس مہلک بیماری سے اچھا کر دینا اتنا ہی نہیں بلکہ جمادات جو محض بےجان چیز ہے اس میں روح ڈال دینا اور قبروں میں سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ کسی کے بس کی بات نہیں؟ صرف اللہ سبحانہ کے حکم سے بطور معجزہ یہ باتیں آپ سے ظاہر ہوئیں، ٹھیک اسی طرح جب ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت فصاحت بلاغت نکتہ رسی اور بلند خیالی بول چال میں نزانت و لطافت کا زمانہ تھا اس فن میں بلند پایہ شاعروں نے وہ کمال حاصل کر لیا تھا کہ دنیا ان کے قدموں پر جھکتی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ ایسی عطا فرمائی گئی کہ ان سب کو کوندتی ہوئی بجلیاں ماند پڑ گئیں اور کلام اللہ کے نور نے انہیں نیچا دکھایا اور یقین کامل ہو گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں، تمام دنیا سے کہدیا گیا اور جتا جتا کر بتا بتا کر سنا سنا کر منادی کر کے بار بار اعلان کیا گیا کہ ہے کوئی؟ جو اس جیسا کلام کہہ سکے؟ اکیلے اکیلے نہیں سب مل جاؤ اور انسان ہی نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو پھر سارے قرآن کے برابر بھی نہیں صرف دس سورتوں کے برابر سہی، اور اچھا یہ بھی نہ سہی ایک ہی سورت اس کی مانند تو بنا کر لاؤ لیکن سب کمریں ٹوٹ گئیں ہمتیں پست ہوگئیں گلے خشک ہوگئے زبان گنگ ہو گئی اور آج تک ساری دنیا سے نہ بن پڑا اور نہ کبھی ہو سکے گا بھلا کہاں اللہ جل شانہ کا کلام اور کہاں مخلوق؟ پس اس زمانہ کے اعتبار سے اس معجزے نے اپنا اثر کیا اور مخالفین کو ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی اور جوق درجوق اسلامی حلقے بڑھتے گئے۔ پھر حضرت مسیح کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالٰی کی دی ہوئی اطلاع بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لئے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالٰی کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے، لیکن درست بات یہی ہے کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے۔

TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٤٩۔١ اخلق لکم ۔ یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالٰی ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے یہاں اس کے معنی ظاہر شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔
٤٩۔٢ دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں نہیں میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت ہو اور بالاتری نمایاں ہو سکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا چنانچہ انہوں نے ٰمردہ کو زندہ کر دینے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینے کا ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور شعر وادب اور فصاحت اور بلاغت کا دور تھا چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے بلغا اور شعرا عاجز رہے اور چلینج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے (ابن کثیر)



MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٤   یعنی پیغمبر ہو کر اپنی قوم بنی اسرائیل سے یہ فرمائینگے۔
 ف۵   محض شکل و صورت بنانے کو "خلق" سے تعبیر کرنا صرف ظاہری حیثیت سے ہے۔ جیسے حدیث صحیح میں معمولی تصویر بنانے کو "خلق" سے تعبیر فرمایا" احیوا ماخلقتم" یا خدا کو "احسن الخالقین" فرما کر بتلا دیا کہ محض ظاہری صورت کے لحاظ سے غیر اللہ پر بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حقیقت تخلیق کے لحاظ سے حق تعالٰی کے سوا کوئی خالق نہیں کہلا سکتا۔ شاید اسی لئے یہاں یوں نہ فرمایا "ــ اَنِّی اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ طَیْرًا" (میں مٹی سے پرندہ بنا دیتا ہوں) یوں کہا کہ میں مٹی سے پرندہ کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں پھر وہ پرندہ اللہ کے حکم سے بن جاتا ہے بہرحال یہ معجزہ آپ نے دکھلایا اور کہتے ہیں بچپن میں ہی بطور "ارہاص" آپ سے یہ خرق عادت ظاہر ہوا تاکہ تہمت لگانے والوں کو ایک چھوٹا سا نمونہ قدرت خداوندی کا دکھلا دیں کہ جب میرے نفخہ (پھونکنے) پر خدا تعالٰی مٹی کی بےجان صورت کو جاندار بنا دیتا ہے اسی طرح اگر اس نے بدون مسِ بشر محض روح القدس کے نفخہ سے ایک برگزیدہ عورت کے پانی پر روح عیسوی فائض کر دی تو کیا تعجب ہے بلکہ حضرت مسیح چونکہ نفخہ جبرئیلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اس مسیحائی نفخہ کو اسی نوعیت ولادت کا ایک اثر سمجھنا چاہیئے۔ سورۃ "مائدہ" کے آخر میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ان معجزات و خوارق پر دوسرے رنگ میں کلام کیا جائے گا وہاں ملاحظہ کیا جائے۔ خلاصہ یہ کہ حضرت مسیح پر کمالات ملکیہ و روحیہ کا غلبہ تھا۔ اسی کے مناسب آثار ظاہر ہوتے تھے۔ لیکن اگر بشر کو ملک پر فضیلت حاصل ہے اور اگر ابو البشر کو مسجود ملائکہ بنایا گیا ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ جس میں تمام کمالاتِ بشریہ (جو عبارت ہے مجموعہ کمالات روحانیہ و جسمانیہ سے) اعلیٰ درجہ پر ہوں گے اس کو حضرت مسیح سے افضل ماننا پڑے گا اور وہ ذات قدسی صفات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
 ف ٦     اس زمانہ میں اطباء و حکماء کا زور تھا۔ حضرت مسیح کو ایسے معجزات مرحمت ہوئے جو لوگوں پر ان کے سب سے زیادہ مایہ ناز فن میں حضرت مسیح کا نمایاں تفوق ثابت کریں بلاشبہ مردہ کو زندہ کرنا حق تعالٰی کی صفت ہے، جیسا کہ باذن اللہ کی قید سے صاف ظاہر ہے مگر مسیح اس کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے تو سعاً اپنی طرف نسبت کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ حق تعالٰی قرآن کریم میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احادیث میں اعلان کر چکے ہیں کہ ازل سے ابد تک کسی مردہ کو دنیا میں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ نرا دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اگر اس نے قرآن میں فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ فرما کر یہ بتلایا کہ مرنے والے کی روح خدا تعالٰی روک لیتا ہے اور سونے والے کی اس طرح نہیں روکتا۔ تو یہ کب کہا ہے کہ اس روک لینے کے بعد دوبارہ اُسے چھوڑ دینے کا اختیار نہیں رہتا۔ یاد رکھو! معجزہ وہی ہے جو حق تعالٰی کی عام عادت کے خلات مدعی نبوت کی تصدیق کے لئے ظاہر کیا جائے۔ پس ایسی نصوص کو لے کر جو کسی چیز کی نسبت خدا کی عام عادت بیان کرتی ہوں یہ استدلال کرنا کہ ان سے معجزات کی نفی ہوتی ہے سرے سے معجزہ کے وجود کا انکار اور اپنی حماقت و غباوت کا اظہار ہے معجزہ اگر عام قانون عادت کے موافق آیا کرے تو اُسے معجزہ کیوں کہیں گے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا بن باپ پیدا ہونا یا ابراء اکمہ وابرص اور احیاء موتی وغیرہ معجزات دکھلانا، اہل اسلام میں تمام سلف و خلف کے نزدیک مسلم رہا ہے۔ صحابہ و تابعین میں ایک قول بھی اس کے انکار میں دکھلایا نہیں جاسکتا آج جو ملحدیہ دعویٰ کرے کہ ان خوارق کا ماننا محکمات قرآنی کے خلاف ہے۔ گویا وہ ایسی چیزوں کو "محکمات" بتلاتا ہے، جن کا صحیح مطلب سمجھنے سے تمام امت عاجز رہی؟ یا سب کے سب محکمات کو چھوڑ کر اور" متشابہات" کے پیچھے پڑ کر" فِی قُلُوبِھِمْ زَیْغٌ" کے مصداق بن گئے؟ آجکل کے ملحدین کے سوا "متشابہات" کو "محکمات" کی طرف لوٹانے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ العیاذباللہ۔ حق یہ ہے کہ وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ کو ساری امت مانتی چلی آئی ہے۔ "محکمات" ہیں۔ اور ان کو توڑ مروڑ کر محض استعارات و تمثیلات پر حمل کرنا اور معجزات کی نفی پر عموم عادت سے دلیل لانا یہ ہی " زائغین" کا کام ہے۔ جن سے حذر کرنے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے۔
 ف ۷    آئندہ کے لئے یعنی بعض مغیبات ماضیہ ومستقبلہ پر تم کو مطلع کر دیتا ہوں۔ عملی معجزات کے بعد یہ ایک علمی معجزہ ذکر کر دیا۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
(ف99) جو میرے دعوائے نبوت کے صدق کی دلیل ہے۔
(ف100) جب حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃوالسلام نے نبوت کا دعوٰی کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی چمگادڑ کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت اکمل اور عجیب تر ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں اوروں سے ابلغ کیونکہ وہ بغیر پروں کے تو اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور بچہ جنتی ہے باوجودیکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں
(ف101) جس کا برص عام ہوگیا ہو اور اطبا اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں طب انتہاۓ عروج پر تھی اور اس کے ماہرین امر علاج میں یدطولٰے رکھتے تھے اس لئے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کے صدق نبوت کی دلیل ہے وہب کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔
(ف102) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ایک عازر جس کو آپ کے ساتھ اخلاص تھا جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ کو اطلاع دی مگر وہ آپ سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا جب آپ تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے آپ نے اس کی بہن سے فرمایا ہمیں اس کی قبر پر لے چل وہ لے گئی آپ نے اللہ تعالٰے سے دعا فرمائی عازر باذن الہٰی زندہ ہو کر قبر سے باہر آیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے اولاد ہوئی ایک بڑھیا کا لڑکا جس کا جنازہ حضرت کے سامنے جارہا تھا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر نعش برداروں کے کندھوں سے اتر پڑا کپڑے پہنے گھر آیا زندہ رہا اولاد ہوئی ایک عاشر کی لڑکی شام کو مری اللہ تعالٰی نے حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا سے اس کو زندہ کیا ایک سام بن نوح جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے لوگوں نے خواہش کی کہ آپ ان کو زندہ کریں آپ ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالٰی سے دعا کی سام نے سنا کوئی کہنے والا کہتا ہے اَجِبْ رُوْحَ اللہ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی اس ہول سے ان کا نصف سر سفید ہوگیا، پھر وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو بغیر اس کے واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا اور باذنِ اللہ فرمانے میں رد ہے نصارٰی کا جو حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل تھے
(ف103) جب حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والتسلیمات نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے تو آپ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کررکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اسی سے ثابت ہوا کہ غیب کے علوم انبیاء کا معجزہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لئے تیار کر رکھاہے۔ آپ کے پاس بچے بہت سے جمع ہوجاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے فلاں چیز تمہارے لئے اٹھا رکھی ہے بچے گھر جاتے روتے گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے۔ اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا بچے کہتے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا وہ جادو گر ہیں ان کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا حضرت عیسٰی علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا وہ یہاں نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے انہوں نے کہا سور ہیں فرمایا ایسا ہی ہوگا اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سب سور ہی سور تھے۔ الحاصل غیب کی خبریں دینا انبیاء کا معجزہ ہے اور بےوساطت انبیاء کوئی بشر امور غیب پر مطلع نہیں ہوسکتا

TWENTY / TWENTY ONE

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com







AYAT # TWENTY / TWENTY ONE :-

(سورة یوسف)
قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا  ۭ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ  ۭ اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ         37؀

یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ ان (باتوں) میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں۔ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں میں انکا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

یوسف نے کہا تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا یہ سب اس علم کی بدولت ہے جو میرے رب نے سکھایا ہے، (١) میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں٢٠)۔
MOULANA JONAH GARHE

بولا نہ آنے پائے گا تم کو کھانا جو ہر روز تم کو ملتا ہے مگر بتا چکوں گا تم کو اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے یہ علم ہے کہ مجھ کو سکھایا میرے رب نے میں نے چھوڑا دین اس قوم کا کہ ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور آخرت سے وہ لوگ منکر ہیں ف٢
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

یوسف نے کہا جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پاس نہ آنے پائے گا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتادوں گا (ف۱۰۰) یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے، بیشک میں نے ان لوگوں کا دین نہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت سے منکر ہیں،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN



TAFSIR

TAFSEER IBAN E KASEER
جیل خانہ میں خوابوں کی تعبیر کا سلسلہ اور تبلیغ توحید
 حضرت یوسف علیہ السلام اپنے دونوں قیدی ساتھیوں کو تسکین دیتے ہیں کہ میں تمہارے دونوں خوابوں کی صحیح تعبیر جانتا ہوں اور اس کے بتانے میں مجھے کوئی بخل نہیں۔ اس کی تعبیر کے واقعہ ہو نے سے پہلے ہی میں تمہیں وہ بتا دوں گا۔ حضرت یوسف کے اس فرمان اور اس وعدے سے تو یہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف، تنہائی کی قید میں تھے کھانے کے وقت کھول دیا جاتا تھا اور ایک دوسرے سے مل سکتے تھے اس لیے آپ نے ان سے یہ وعدہ کیا اور ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے تھوڑی تھوڑی کر کے دونوں خوابوں کی پوری تعبیر بتلائی گی ہو۔ ابن عباس سے یہ اثر مروی ہے گو بہت غریب ہے۔ پھر فرماتے ہیں مجھے یہ علم اللہ تعالٰی کی طرف سے عطا فرما گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں نے ان کافروں کا مذہب چھوڑ رکھا ہے جو نہ اللہ کو مانیں نہ آخرت کو برحق جانیں میں نے اللہ کے پیغمبروں کے سچے دین کو مان رکھا ہے اور اسی کی تابعداری کرتا ہوں۔ خود میرے باپ دادا اللہ کے رسول تھے۔ ابراہیم، اسحاق ، یعقوب علیہ الصلواۃ والسلام۔ فی الواقع جو بھی راہ راست پر استقامت سے چلے ہدایت کا پیرو رہے۔ اللہ کے رسولوں کی اتباع کو لازم پکڑ لے، گمراہوں کی راہ سے منہ پھیر لے۔ اللہ تبارک تعالٰی اس کے دل کو پرنور اور اس کے سینے کو معمور کر دیتا ہے۔ اسے علم و عرفان کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اسے بھلائی میں لوگوں کا پیشوا کر دیتا ہے کہ اور دنیا کو وہ نیکی کی طرف بلاتا رہتا ہے۔ ہم جب کہ راہ راست دکھا دئیے گئے توحید کی سمجھ دے دئیے گئے شرک کی برائی بتا دئیے گئے۔ پھر ہمیں کیسے یہ بات زیب دیتی ہے؟ کہ ہم اللہ کے ساتھ اور کسی کو بھی شریک کرلیں۔ یہ توحید اور سچا دین اور یہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی یہ خاص اللہ کا فضل ہے جس میں ہم تنہا نہیں بلکہ اللہ کی اور مخلوق بھی شامل ہے۔ ہاں ہمیں یہ برتری ہے کہ ہماری جانب یہ براہ راست اللہ کی وحی آئی ہے۔ اور لوگوں کو ہم نے یہ وحی پہنچائی۔ لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں۔ اللہ کی اس زبردست نعمت کی جو اللہ نے ان پر رسول بھیج کر انعام فرمائی ہے ناقدری کرتے ہیں اور اسے مان کر نہیں رہتے بلکہ رب کی نعمت کے بدلے کفر کرتے ہیں۔ اور خود مع اپنے ساتھیوں کے ہلاکت کے گھر میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس دادا کو بھی باپ کے مساوی میں رکھتے ہیں اور فرماتے جو چاہے حطیم میں اس سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالٰی نے دادا دادی کا ذکر نہیں کیا دیکھو حضرت یوسف کے بارے میں فرمایا میں نے اپنے باپ ابراہیم اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی۔


TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٣٧۔١ یعنی میں جو تعبیر بتلاؤں گا، وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح ظن و تخمین پر مبنی نہیں ہوگی، جس میں خطا اور نیکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ میری تعبیر یقینی علم پر مبنی ہوگی جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیا ہے، جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں۔
٣٧۔٢ یہ الہام اور علم الٰہی (جن سے آپ کو نوازا گیا) کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا جو اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس کے صلے میں اللہ تعالٰی کے یہ انعامات مجھ پر ہوئے۔



MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٢ یوسف علیہ السلام نے اول ان کو تسلی دی کہ بیشک خوابوں کی تعبیر تمہیں بہت جلد معلوم ہوا چاہتی ہے روز مرہ جو کھانا تم کو ملتا ہے اس کے آنے سے پیشتر میں تعبیر بتلا کر فارغ ہو جاؤں گا۔ لیکن تعبیر خواب سے زیادہ ضروری اور مفید ایک چیز پہلے تم کو سناتا ہوں۔ وہ یہ کہ تعبیر وغیرہ کا یہ علم مجھ کو کہاں سے حاصل ہوا۔ سو یاد رکھو کہ میں کوئی پیشہ ور کاہن یا منجم نہیں بلکہ میرے علم کا سرچشمہ وحی اور الہام ربانی ہے جو مجھ کو حق تعالٰی نے اس کی بدولت عطا فرمایا کہ میں نے ہمیشہ سے کافروں اور باطل پرستوں کے دین و ملت کو چھوڑے رکھا اور اپنے مقدس آباؤ اجداد (حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب) جیسے انبیاء و مرسلین کے دین توحید پر چلا اور ان کا اسوہ حسنہ اختیار کیا۔ ہمارا سب سے بڑا اور مقدم مطمح نظر یہ ہی رہا کہ دنیا کی کسی چیز کو کسی درجہ میں بھی خدا کا شریک نہ بنائیں نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، نہ ربوبیت و معبودیت میں۔ صرف اسی کے آگے جھکیں، اسی سے محبت کریں، اسی پر بھروسہ رکھیں ۔ اور اپنا جینا مرنا سب اسی ایک پروردگار کے حوالہ کر دیں۔ بہرحال یوسف علیہ السلام نے موقع مناسب دیکھ کر نہایت موثر طرز میں ان قیدیوں کو ایمان و توحید کی طرف آنے کی ترغیب دی۔ پیغمبروں کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ حق کا کوئی مناسب موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان قیدیوں کے دل میری طرف متوجہ اور مجھ سے مانوس ہیں۔ قید کی مصیبت میں گرفتار ہو کر شاید کچھ نرم بھی ہوئے ہوں گے۔ لاؤ ان حالات سے فرض تبلیغ کے ادا کرنے میں فائدہ اٹھائیں۔ اول ان کو دین کی باتیں سکھلائیں۔ پھر تعبیر بھی بتلا دیں گے۔ یہ تسلی پہلے کر دی کہ کھانے کے وقت تک تعبیر معلوم ہو جائے گی تاکہ وہ نصیحت سے اکتائیں نہیں۔ (تنبیہ) بہت سے مفسرین نے ( لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ) 12۔یوسف:37) کے معنی یہ لیے ہیں کہ کبھی کھانا تمہارے پاس نہیں آتا ہے مگر میں آنے سے پہلے اس کی حقیقت پر تم کو مطلع کر دیا کرتا ہوں۔ یعنی آج کیا کھانا آئے گا، کس قسم کا ہوگا، پھر تعبیر بتلانا کیا مشکل ہے۔ گویا اول حضرت یوسف نے معجزہ کی طرف توجہ دلا کر انہیں اپنی نبوت کا یقین دلانا چاہا، تاکہ آئندہ جو نصیحت کریں زیادہ موثر واقع فی النفس ہو۔ اس تقدیر پر یوسف کا یہ معجزہ ایسا ہی ہوگا جیسے حضرت مسیح نے فرمایا تھا (وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ) 3۔آل عمران:49) مگر مترجم محقق نے پہلی تفسیر اختیار کی ہے واللہ اعلم۔ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں "حق تعالٰی نے قید میں یہ حکمت رکھی کہ ان کا دل کافروں کی محبت سے (یعنی کافر جو ان کی محبت و مدارت کرتے تھے، اس سے) ٹوٹا تو دل پر اللہ کا علم روشن ہوا۔ چاہا کہ اول ان کی دین کی بات سنا دیں پیچھے تعبیر خواب کہیں۔ اس واسطے تسلی کر دی، تاکہ نہ گھبرائیں۔ کہا کہ کھانے کے وقت تک وہ بھی بتا دوں گا۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
((ف100) اس کی مقدار اور اس کا رنگ اور اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا یا کتنا کھایا یا کب کھایا ۔