visit 4 rad e razakhaniyat data
huge data ............... www.razakhaniyat.weebly.com
picture data .......... www.deobandcamp.weebly.com
AYAT # TWENTY TWO :-
(سورة آل عمران)
وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49ۚ
اور (عیسی) بنی اسرائیل کی طرف سے پیغمبر (ہو کر جائیں گے اور کہیں گے) میں تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پرندہ بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے (سچ مچ) جانور ہوجاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردے میں جان دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمہارے لئے (قدرت) خدا کی نشانی ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI
اور وہ بنی اسرائیل کی طرف سے رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں (١) پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالٰی کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کے حکم سے میں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر لیتا ہوں اور مردے کو جگا دیتا ہوں (٢) اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایمان لانے والے ہو۔
MOULANA JONAH GARHE
اور کریگا اس کو پیغمبر بنی اسرائیل کی طرف بیشک میں آیا ہوں تمہارے پاس نشانیاں لے کر تمہارے رب کی طرف سے ف٤ کہ میں بنا دیتا ہوں تم کو گارے سے پرندہ کی شکل پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو ہو جاتا ہے وہ اڑتا جانور اللہ کے حکم سے ف ٥ اور اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور جِلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے ف ٦ اور بتا دیتا ہوں تم کو جو کھا کر آؤ اور جو رکھ آؤ اپنے گھر میں ف٧ اس میں نشانی پوری ہے تم کو اگر تم یقین رکھتے ہو
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN
اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف، یہ فرماتا ہو کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں (ف۹۹) تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے (ف۱۰۰) اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو (ف۱۰۱) اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے (ف۱۰۲) اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو، (ف۱۰۳) بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN
TAFSIR
TAFSEER IBAN E KASEER
فرشتوں کا مریم سے خطاب
فرشتے حضرت مریم سے کہتے ہیں کہ تیرے اس لڑکے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم لکھنا سکھائے گا حکمت سکھائے گا لفظ حکمت کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے، اور اسے توراۃ سکھائے گا جو حضرت موسیٰ بن عمران پر اتری تھی اور انجیل سکھائے گا جو حضرت عیسیٰ ہی پر اتری، چنانچہ آپ کو یہ دونوں کتابیں حفظ تھیں، انہیں بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجے گا، اور اس بات کو کہنے کے لئے کہ میرا یہ معجزہ دیکھو کہ مٹی لی اس کا پرندہ بنایا پھر پھونک مارتے ہی وہ سچ مچ کا جیتا جاگتا پرند بن کر سب کے سامنے اڑنے لگا، یہ اللہ کے حکم اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب تھا، حضرت عیسیٰ کی اپنی قدرت سے نہیں یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کا نشان تھا، اکمہ اس اندھے کو کہتے ہیں جسے دن کے وقت دکھائی نہ دے اور رات کو دکھائی دے، بعض نے کہا اکمہ اس نابینا کو کہتے ہیں جسے دن کو دکھائی دے اور رات کو دکھائی نہ دے، بعض کہتے ہیں بھینگا اور ترچھا اور کانا مراد ہے، بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے بالکل اندھا پیدا ہوا ہو، یہاں یہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں معجزے کا کمال یہی ہے اور مخالفین کو عاجز کرنے کے لئے اس کی یہ صورت اور صورتوں سے اعلیٰ ہے، ابرص سفید دانے والے کوڑھی کو کہتے ہیں ایسی بیمار بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ اچھے کر دیتے تھے اور مردوں کو بھی اللہ عزوجل کے حکم سے آپ زندہ کر دیا کرتے تھے، اکثر علماء کا قول ہے کہ ہر ہر زمانے کے نبی کو اس زمانے والوں کی مناسبت سے خاص خاص معجزات حضرت باری غراسمہ نے عطا فرمائے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا اور جادو گروں کی بڑی قدرو تعظیم تھی تو اللہ تعالٰی نھے آپ کو وہ معجزہ دیا جس سے تمام جادوگروں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حیرت طاری ہو گئی اور انہیں کامل یقین ہو گیا کہ یہ تو الہ واحد و قہار کی طرف سے عطیہ ہے جادو ہرگز نہیں چنانچہ ان کی گردنیں جھک گئیں اور یک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور بالاخر اللہ کے مقرب بندے بن گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طبیبوں اور حکیموں کا دور دورہ تھا۔ کامل اطباء اور ماہر حکیم علم طب کے پورے عالم اور لاجواب کامل الفن استاد موجود تھے پس آپ کو وہ معجزے دے گئے جس سے وہ سب عاجز تھے بھلا مادر زاد اندھوں کو بالکل بینا کر دینا اور کوڑھیوں کو اس مہلک بیماری سے اچھا کر دینا اتنا ہی نہیں بلکہ جمادات جو محض بےجان چیز ہے اس میں روح ڈال دینا اور قبروں میں سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ کسی کے بس کی بات نہیں؟ صرف اللہ سبحانہ کے حکم سے بطور معجزہ یہ باتیں آپ سے ظاہر ہوئیں، ٹھیک اسی طرح جب ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت فصاحت بلاغت نکتہ رسی اور بلند خیالی بول چال میں نزانت و لطافت کا زمانہ تھا اس فن میں بلند پایہ شاعروں نے وہ کمال حاصل کر لیا تھا کہ دنیا ان کے قدموں پر جھکتی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ ایسی عطا فرمائی گئی کہ ان سب کو کوندتی ہوئی بجلیاں ماند پڑ گئیں اور کلام اللہ کے نور نے انہیں نیچا دکھایا اور یقین کامل ہو گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں، تمام دنیا سے کہدیا گیا اور جتا جتا کر بتا بتا کر سنا سنا کر منادی کر کے بار بار اعلان کیا گیا کہ ہے کوئی؟ جو اس جیسا کلام کہہ سکے؟ اکیلے اکیلے نہیں سب مل جاؤ اور انسان ہی نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو پھر سارے قرآن کے برابر بھی نہیں صرف دس سورتوں کے برابر سہی، اور اچھا یہ بھی نہ سہی ایک ہی سورت اس کی مانند تو بنا کر لاؤ لیکن سب کمریں ٹوٹ گئیں ہمتیں پست ہوگئیں گلے خشک ہوگئے زبان گنگ ہو گئی اور آج تک ساری دنیا سے نہ بن پڑا اور نہ کبھی ہو سکے گا بھلا کہاں اللہ جل شانہ کا کلام اور کہاں مخلوق؟ پس اس زمانہ کے اعتبار سے اس معجزے نے اپنا اثر کیا اور مخالفین کو ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی اور جوق درجوق اسلامی حلقے بڑھتے گئے۔ پھر حضرت مسیح کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالٰی کی دی ہوئی اطلاع بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لئے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالٰی کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے، لیکن درست بات یہی ہے کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے۔
TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٤٩۔١ اخلق لکم ۔ یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالٰی ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے یہاں اس کے معنی ظاہر شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔
٤٩۔٢ دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں نہیں میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت ہو اور بالاتری نمایاں ہو سکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا چنانچہ انہوں نے ٰمردہ کو زندہ کر دینے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینے کا ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور شعر وادب اور فصاحت اور بلاغت کا دور تھا چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے بلغا اور شعرا عاجز رہے اور چلینج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے (ابن کثیر)
MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٤ یعنی پیغمبر ہو کر اپنی قوم بنی اسرائیل سے یہ فرمائینگے۔
ف۵ محض شکل و صورت بنانے کو "خلق" سے تعبیر کرنا صرف ظاہری حیثیت سے ہے۔ جیسے حدیث صحیح میں معمولی تصویر بنانے کو "خلق" سے تعبیر فرمایا" احیوا ماخلقتم" یا خدا کو "احسن الخالقین" فرما کر بتلا دیا کہ محض ظاہری صورت کے لحاظ سے غیر اللہ پر بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حقیقت تخلیق کے لحاظ سے حق تعالٰی کے سوا کوئی خالق نہیں کہلا سکتا۔ شاید اسی لئے یہاں یوں نہ فرمایا "ــ اَنِّی اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ طَیْرًا" (میں مٹی سے پرندہ بنا دیتا ہوں) یوں کہا کہ میں مٹی سے پرندہ کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں پھر وہ پرندہ اللہ کے حکم سے بن جاتا ہے بہرحال یہ معجزہ آپ نے دکھلایا اور کہتے ہیں بچپن میں ہی بطور "ارہاص" آپ سے یہ خرق عادت ظاہر ہوا تاکہ تہمت لگانے والوں کو ایک چھوٹا سا نمونہ قدرت خداوندی کا دکھلا دیں کہ جب میرے نفخہ (پھونکنے) پر خدا تعالٰی مٹی کی بےجان صورت کو جاندار بنا دیتا ہے اسی طرح اگر اس نے بدون مسِ بشر محض روح القدس کے نفخہ سے ایک برگزیدہ عورت کے پانی پر روح عیسوی فائض کر دی تو کیا تعجب ہے بلکہ حضرت مسیح چونکہ نفخہ جبرئیلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اس مسیحائی نفخہ کو اسی نوعیت ولادت کا ایک اثر سمجھنا چاہیئے۔ سورۃ "مائدہ" کے آخر میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ان معجزات و خوارق پر دوسرے رنگ میں کلام کیا جائے گا وہاں ملاحظہ کیا جائے۔ خلاصہ یہ کہ حضرت مسیح پر کمالات ملکیہ و روحیہ کا غلبہ تھا۔ اسی کے مناسب آثار ظاہر ہوتے تھے۔ لیکن اگر بشر کو ملک پر فضیلت حاصل ہے اور اگر ابو البشر کو مسجود ملائکہ بنایا گیا ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ جس میں تمام کمالاتِ بشریہ (جو عبارت ہے مجموعہ کمالات روحانیہ و جسمانیہ سے) اعلیٰ درجہ پر ہوں گے اس کو حضرت مسیح سے افضل ماننا پڑے گا اور وہ ذات قدسی صفات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
ف ٦ اس زمانہ میں اطباء و حکماء کا زور تھا۔ حضرت مسیح کو ایسے معجزات مرحمت ہوئے جو لوگوں پر ان کے سب سے زیادہ مایہ ناز فن میں حضرت مسیح کا نمایاں تفوق ثابت کریں بلاشبہ مردہ کو زندہ کرنا حق تعالٰی کی صفت ہے، جیسا کہ باذن اللہ کی قید سے صاف ظاہر ہے مگر مسیح اس کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے تو سعاً اپنی طرف نسبت کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ حق تعالٰی قرآن کریم میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احادیث میں اعلان کر چکے ہیں کہ ازل سے ابد تک کسی مردہ کو دنیا میں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ نرا دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اگر اس نے قرآن میں فَیُمْسِکُ الَّتِی قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ فرما کر یہ بتلایا کہ مرنے والے کی روح خدا تعالٰی روک لیتا ہے اور سونے والے کی اس طرح نہیں روکتا۔ تو یہ کب کہا ہے کہ اس روک لینے کے بعد دوبارہ اُسے چھوڑ دینے کا اختیار نہیں رہتا۔ یاد رکھو! معجزہ وہی ہے جو حق تعالٰی کی عام عادت کے خلات مدعی نبوت کی تصدیق کے لئے ظاہر کیا جائے۔ پس ایسی نصوص کو لے کر جو کسی چیز کی نسبت خدا کی عام عادت بیان کرتی ہوں یہ استدلال کرنا کہ ان سے معجزات کی نفی ہوتی ہے سرے سے معجزہ کے وجود کا انکار اور اپنی حماقت و غباوت کا اظہار ہے معجزہ اگر عام قانون عادت کے موافق آیا کرے تو اُسے معجزہ کیوں کہیں گے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا بن باپ پیدا ہونا یا ابراء اکمہ وابرص اور احیاء موتی وغیرہ معجزات دکھلانا، اہل اسلام میں تمام سلف و خلف کے نزدیک مسلم رہا ہے۔ صحابہ و تابعین میں ایک قول بھی اس کے انکار میں دکھلایا نہیں جاسکتا آج جو ملحدیہ دعویٰ کرے کہ ان خوارق کا ماننا محکمات قرآنی کے خلاف ہے۔ گویا وہ ایسی چیزوں کو "محکمات" بتلاتا ہے، جن کا صحیح مطلب سمجھنے سے تمام امت عاجز رہی؟ یا سب کے سب محکمات کو چھوڑ کر اور" متشابہات" کے پیچھے پڑ کر" فِی قُلُوبِھِمْ زَیْغٌ" کے مصداق بن گئے؟ آجکل کے ملحدین کے سوا "متشابہات" کو "محکمات" کی طرف لوٹانے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ العیاذباللہ۔ حق یہ ہے کہ وہ آیات جن کے ظاہری معنیٰ کو ساری امت مانتی چلی آئی ہے۔ "محکمات" ہیں۔ اور ان کو توڑ مروڑ کر محض استعارات و تمثیلات پر حمل کرنا اور معجزات کی نفی پر عموم عادت سے دلیل لانا یہ ہی " زائغین" کا کام ہے۔ جن سے حذر کرنے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے۔
ف ۷ آئندہ کے لئے یعنی بعض مغیبات ماضیہ ومستقبلہ پر تم کو مطلع کر دیتا ہوں۔ عملی معجزات کے بعد یہ ایک علمی معجزہ ذکر کر دیا۔
MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
(ف99) جو میرے دعوائے نبوت کے صدق کی دلیل ہے۔
(ف100) جب حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃوالسلام نے نبوت کا دعوٰی کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی چمگادڑ کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت اکمل اور عجیب تر ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں اوروں سے ابلغ کیونکہ وہ بغیر پروں کے تو اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور بچہ جنتی ہے باوجودیکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں
(ف101) جس کا برص عام ہوگیا ہو اور اطبا اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں طب انتہاۓ عروج پر تھی اور اس کے ماہرین امر علاج میں یدطولٰے رکھتے تھے اس لئے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کے صدق نبوت کی دلیل ہے وہب کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔
(ف102) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ایک عازر جس کو آپ کے ساتھ اخلاص تھا جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ کو اطلاع دی مگر وہ آپ سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا جب آپ تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے آپ نے اس کی بہن سے فرمایا ہمیں اس کی قبر پر لے چل وہ لے گئی آپ نے اللہ تعالٰے سے دعا فرمائی عازر باذن الہٰی زندہ ہو کر قبر سے باہر آیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے اولاد ہوئی ایک بڑھیا کا لڑکا جس کا جنازہ حضرت کے سامنے جارہا تھا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر نعش برداروں کے کندھوں سے اتر پڑا کپڑے پہنے گھر آیا زندہ رہا اولاد ہوئی ایک عاشر کی لڑکی شام کو مری اللہ تعالٰی نے حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا سے اس کو زندہ کیا ایک سام بن نوح جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے لوگوں نے خواہش کی کہ آپ ان کو زندہ کریں آپ ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالٰی سے دعا کی سام نے سنا کوئی کہنے والا کہتا ہے اَجِبْ رُوْحَ اللہ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی اس ہول سے ان کا نصف سر سفید ہوگیا، پھر وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو بغیر اس کے واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا اور باذنِ اللہ فرمانے میں رد ہے نصارٰی کا جو حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل تھے
(ف103) جب حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والتسلیمات نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے تو آپ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کررکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اسی سے ثابت ہوا کہ غیب کے علوم انبیاء کا معجزہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لئے تیار کر رکھاہے۔ آپ کے پاس بچے بہت سے جمع ہوجاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے فلاں چیز تمہارے لئے اٹھا رکھی ہے بچے گھر جاتے روتے گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے۔ اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا بچے کہتے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا وہ جادو گر ہیں ان کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا حضرت عیسٰی علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا وہ یہاں نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے انہوں نے کہا سور ہیں فرمایا ایسا ہی ہوگا اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سب سور ہی سور تھے۔ الحاصل غیب کی خبریں دینا انبیاء کا معجزہ ہے اور بےوساطت انبیاء کوئی بشر امور غیب پر مطلع نہیں ہوسکتا
No comments:
Post a Comment