visit 4 rad e razakhaniyat data
huge data ............... www.razakhaniyat.weebly.com
picture data .......... www.deobandcamp.weebly.com
AYAT # EIGHTEEN :-
(سورة الکهف)
عفَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا 65
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI
پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (١) کو پایا، جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت (٢) عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص(٣) علم سکھا رکھا تھا۔
MOULANA JONAH GARHE
پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں کہ جس کو دی تھی ہم نے رحمت اپنے پاس سے اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم ف٢
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN
تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا (ف۱٤٤) جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی (ف۱٤۵) اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا (ف۱٤٦)
TARJUMA AHMED RAZA KHAN
TAFSIR
TAFSEER IBAN E KASEER
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالٰی بیان فرماتا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں ۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں ، الخ ۔
صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے میں نے کہا کہ اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے ، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالٰی نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑ جائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی ۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کر دینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے ۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا ۔ لفتہ سے یہی مراد ہے ۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے ۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپ نے منہ کھولا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آ رہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں ۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا ۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا ۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے ۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ الخ یہ نوف کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالٰی سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما ، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے ، چنانچہ شرط ہو گئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی ، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا ۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا ۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں ، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی ، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا ، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا ، تمہارے نبی سے باتیں کیں ، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا ، اس پر اپنی محبت ڈال دی ، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں ، تمھارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں ، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی ۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے ۔ اسی وقت جناب باری تعالٰی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر علیہ السلام ہیں پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو ، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے ۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟
TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
۔١ اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورہ کہف)
٦٥۔٢ رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔
٦٥۔٣ اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی بہرہ ور تھے، بعض خاص امور کا علم ہے جس اللہ تعالٰی نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالٰی نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کر دی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کر دیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔
MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٢ وہ بندہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ جن کو حق تعالٰی نے رحمت خصوصی سے نوازا اور اسرار کونیہ کے علم سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت خضر کو رسول مانا جائے یا نبی یا محض ولی کے درجہ میں رکھا جائے۔ ایسے مباحث کا فیصلہ یہاں نہیں ہو سکتا۔ تاہم احقر کا رجحان اسی طرف ہے کہ ان کو نبی تسلیم کیا جائے اور جیسا کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ جو انبیاء جدید شریعت لے کر نہیں آتے ان کو بھی اتنا تصرف و اختیار عطاء ہوتا ہے کہ مصالح خصوصیہ کی بناء پر شریعت مستقلہ کے کسی عام کی تخصیص یا مطلق کی تقیید یا عام ضابطہ سے بعض جزئیات کا استثناء کر سکیں۔ اسی طرح جزئی تصرفات حضرت خضر کو بھی حاصل تھے، واللہ اعلم۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام خضر سے ملے۔ علیک سلیک کے بعد خضر نے پوچھا۔ موسیٰ نے آنے کا سبب بتلایا۔ خضر نے کہا اے موسیٰ! بلاشبہ اللہ نے تمہاری تربیت فرمائی۔ پر بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک علم (جزئیات کونیہ کا) مجھ کو ملا ہے جو (اتنی مقدار میں) تم کو نہیں ملا۔ اور ایک علم (اسرار تشریع کا) تم کو دیا گیا ہے جو (اتنی بہتات سے) مجھ کو نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ایک چڑیا دکھا کر جو دریا میں سے پانی پی رہی تھی، کہا کہ میرا، تمہارا بلکہ کل مخلوقات کا سارا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہے جتنا دریا کے پانی میں سے وہ قطرہ جو چڑیا کے منہ کو لگ گیا ہے (یہ بھی محض تفہیم کے لیے تھا ورنہ متناہی کو غیر متناہی سے قطرہ اور دریا کی نسبت بھی نہیں)
MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
ف144) جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا یہ حضرت خضر تھے علٰی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام ۔ لفظِ خضر لغت میں تین طرح آیا ہے بکسرِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا و سکونِ ضاد اور بفتحِ خا وکسرِ ضاد ۔ یہ لقب ہے اور وجہ اس لقب کی یہ ہے کہ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہو جاتی ہے ، نام آپ کا بلیا بن ملکان اور کنیّت ابو العباس ہے ، ایک قول یہ ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ آپ شہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیار فرمایا ۔
(ف145) اس رحمت سے یا نبوت مراد ہے یا ولایت یا علم یا طولِ حیات ، آپ ولی تو بالیقین ہیں آپ کی نبوت میں اختلاف ہے ۔
(ف146) یعنی غیوب کا علم ۔ مفسرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندہ کو بطریق الہام حاصل ہو ۔ حدیث شریف میں ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے حضرت خضر علٰی نبینا وعلیہ السلام کو دیکھا کہ سفید چادر میں لپٹے ہوئے ہیں تو آپ نے انہیں سلام کیا انہوں نے دریافت کیا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسٰی ہوں انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسٰی ؟ فرمایا کہ جی ہاں پھر ۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDeletePadh lijiye Hazrat Khidr k baare mein Muktalif Tafaseer se..
ReplyDeletehttp://www.scribd.com/doc/104149937/khizr