Friday, 1 July 2011

EIGHT

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # EIGHT :-

(سورة النعام)

وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ  ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ    59؀

(اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاوں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں چھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانا اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

اور اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالٰی کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں (١)
MOULANA JONAH GARHE

اور اسی کے پاس کنجیاں ہیں غیب کی کہ ان کو کوئی نہیں جانتا اس کے سوا اور وہ جانتا ہے جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتا مگر وہ جانتا ہے اس کو اور نہیں گرتا کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز مگر وہ سب کتاب مبین میں ہے ف٤
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے (ف۱۲۹) اور جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے، اور جو پتّا گرتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو(ف۱۳۰)
TARJUMA AHMED RAZA KHAN

TAFSIR

TAFSEER IBAN E KASEER
نیک و بد کی وضاحت کے بعد؟
 یعنی جس طرح ہم نے اس سے پہلے ہدایت کی باتیں اور بھلائی کی راہیں واضح کر دیں نیکی بدی کھول کھول کر بیان کر دی اسی طرح ہم ہر اس چیز کا تفصیلی بیان کرتے ہیں جس کی تمہیں ضرورت پیش آنے والی ہے ۔ اس میں علاوہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مجرموں کا راستہ نیکوں پر عیاں ہو جائے ۔ ایک اور قرأت کے اعتبار سے یہ مطلب ہے تاکہ تو گنہگاروں کا طریقہ واردات لوگوں کے سامنے کھول دے ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں اعلان کر دو کہ میرے پاس الٰہی دلیل ہے میں اپنے رب کی دی ہوئی سچی شریعت پر قائم ہوں ۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے میرے پاس وحی آتی ہے ، افسوس کہ تم اس حق کو جھٹلا رہے ہو ، تم اگرچہ عذابوں کی جلدی مچا رہے ہو لیکن عذاب کا لانا میرے اختیار کی چیز نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے ماتحت ہے ۔ اس کی مصلحت وہی جانتا ہے اگر چاہے دیر سے لائے اگر چاہے تو جلدی لائے، وہ حق بیان فرمانے والا اور اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلے کرنے والا ہے ، سنو اگر میرا ہی حکم چلتا میرے ہی اختیار میں ثواب و عذاب ہوتا ، میرے بس میں بقا اور فنا ہوتی تو میں جو چاہتا ہو جایا کرتا اور میں تو ابھی اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر لیتا اور تم پر وہ عذاب برس پڑتے جن سے میں تمہیں ڈرا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرے بس میں کوئی بات نہیں، اختیار والا اللہ تعالٰی اکیلا ہی ہے ، وہ ظالموں کو بخوبی جانتا ہے، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ احد سے زیادہ سختی کا تو آپ پر کوئی دن نہ آیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا عائشہ کیا پوچھتی ہو کہ مجھے اس قوم نے کیا کیا ایذائیں پہنچیں ؟ سب سے زیادہ بھاری دن مجھ پر عقبہ کا دن تھا جبکہ میں عبدالیل بن عبد کلال کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے آرزو کی کہ وہ میرا ساتھ دے مگر اس نے میری بات نہ مانی ، واللہ میں سخت غمگین ہو کر وہاں سے چلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں، قرن ثعالب میں آ کر میرے حواس ٹھیک ہوئے تو میں نے دیکھا کہ اوپر سے ایک بادل نے مجھے ڈھک لیا ہے ، سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے آواز دے کر فرما رہے ہیں اللہ تعالٰی نے تیری قوم کی باتیں سنیں اور جو جواب انہوں نے تجھے دیا وہ بھی سنا ۔ اب پہاڑوں کے داروغہ فرشتے کو اس نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں انہیں حکم دیجئے یہ بجا لائیں گے، اسی وقت اس فرشتے نے مجھے پکارا سلام کیا اور کہا اللہ تعالٰی نے آپ کی قوم کی باتیں سنیں اور مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کے بارے میں جو ارشاد آپ فرمائیں میں بجا لاؤں ، اگر آپ حکم دیں تو مکہ شریف کے ان دونوں پہاڑوں کو جو جنوب شمال میں ہیں میں اکٹھے کر دوں اور ان تمام کو ان دونوں کے درمیان پیس دوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ نہیں میں یہ نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو امید ہے کہ کیا عجب ان کی نسل میں آگے جا کر ہی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہاں یہاں یہ بات خیال میں رہے کہ کوئی اس شبہ میں نہ پڑے کہ قرآن کی اس آیت میں تو ہے کہ اگر میرے بس میں عذاب ہوتے تو ابھی ہی فیصلہ کر دیا جاتا اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے بس میں کر دیئے پھر بھی آپ نے ان کیلئے تاخیر طلب کی ۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ عذاب طلب کرتے اس وقت اگر آپ کے بس میں ہوتا تو اسی وقت ان پر عذاب آ جاتا اور حدیث میں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے کوئی عذاب مانگا تھا ۔ حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو یہ بتلایا کہ بحکم الہ میں یہ کر سکتا ہوں صرف آپ کی زبان مبارک کے ہلنے کا منتظر ہوں لیکن رحمتہ للعالمین کو رحم آ گیا اور نرمی برتی ، پس آیت و حدیث میں کوئی معارضہ نہیں۔ واللہ اعلم ۔ حضور کا فرمان ہے غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ   ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا   ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31۔لقمان:34) پڑھی ، یعنی قیامت کا علم ، بارش کا علم، پیٹ کے بچے کا علم، کل کے کام کا علم، موت کی جگہ کا علم۔ اس حدیث میں جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بصورت انسان آ کر حضور سے ایمان اسلام احسان کی تفصیل پوچھنا بھی مروی ہے یہ بھی ہے کہ جب قیامت کے صحیح وقت کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو نہیں ۔ پھر آپ نے آیت  (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ   ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا   ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31۔لقمان:34) تلاوت فرمائی ۔ پھر فرماتا ہے اس کا علم تمام موجودات کو احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بری بحری کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ۔ آسمان و زمین کا ایک ذرہ اس پر پوشیدہ نہیں ۔ صرصری کا کیا ہی اچھا شعر ہے ۔
فلا یحفی علیہ الذراما یترای للنواظر او تواری
یعنی کسی کو کچھ دکھائی دے نہ دے رب پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں، وہ سب کی ہرکات سے بھی واقف ہے ، جمادات کا ہلنا جلنا یہاں تک کہ پتے کا جھڑنا بھی اس کے وسیع علم سے باہر نہیں ۔ پھر بھلا جنات اور انسان کا کونسا علم اس پر مخفی رہ سکتا ہے؟ جیسے فرمان عالی شان ہے آیت (يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ) 40۔غافر:19) آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ بھید بھی اس پر عیاں ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ خشکی تری کا کوئی درخت ایسا نہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو اس کے جھڑ جانے والے پتوں کو بھی لکھ لے ، پھر فرماتا ہے زمین کے اندھیروں کے دانوں کا بھی اس اللہ کو علم ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ، تیسری زمین کے اوپر اور چوتھی کے نیچے اتنے جن بستے ہیں کہ اگر وہ اس زمین پر آ جائیں تو ان کی وجہ سے کوئی روشنی نظر نہ پڑے ، زمین کے ہر کونے پر اللہ کی مہروں میں سے ایک مہر اور ہر مہر پر ایک فرشتہ مقرر ہے اور ہر دن اللہ کی طرف سے ہے اس کے پاس ایک اور فرشتے کے ذریعہ سے حکم پہنچتا ہے کہ تیرے پاس جو ہے اس کی بخوبی حفاظت کر ۔ حضرت عبداللہ بن حارث فرماتے ہیں کہ زمین کے ہر ایک درخت وغیرہ پر فرشتے مقرر ہیں جو ان کی خشکی تری وغیرہ کی بابت اللہ کی جناب میں عرض کر دیتے ہیں ۔ ابن عباس سے مروی ہے اللہ تعالٰی نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور تختیاں بنائیں اور اس میں دنیا کے تمام ہونے والے اموار لکھے ۔ کل مخلوق کی روزیاں، حلال حرام نیکی بدی سب کچھ لکھ دیا ہے پھر یہی آیت پڑھی ۔


TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٥٩۔۱ 'کتاب مُبِین ' سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں اس لئے کفار و مشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں (صحیح بخاری)

MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٤ یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ لوح محفوظ میں جو چیز ہوگی وہ علم الٰہی میں پہلے ہوگی۔ اس اعتبار سے مضمون آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عالم غیب و شہادت کی کوئی خشک و تر اور چھوٹی بڑی چیز حق تعالٰی کے علم ازلی محیط سے خارج نہیں ہو سکتی۔ بناء علیہ ان ظالموں کے ظاہری و باطنی احوال اور انکی سزا دہی کے مناسب وقت و محل کا پورا پورا علم اسی کو ہے (تنبیہ) "مفاتیح"کو جن علماء نے مَفتح بفتح المیم کی جمع قرار دیا ہے انھوں نے "مفاتیح الغیب " کا ترجمہ " غیب کے خزانوں " سے کیا اور جن کے نزدیک مفتح بکسر المیم کی جمع ہے وہ "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ مترجم رحمہ اللہ کے موافق کرتے ہیں، یعنی "غیب کی کنجیاں " مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی ان میں سے جس خزانہ کو جس وقت اور جس قدر چاہے کسی پر کھول سکتا ہے کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس و عقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی پا سکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کر دئیے گئے ہیں ان میں از خود اضافہ کر لے کیونکہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کر دیا گیا ہو۔ تاہم غیب کے اصول و کلیات کا علم جن کو "مفاتیح غیب " کہنا چاہئے، حق تعالٰی نے اپنے ہی لئے مخصوص رکھا ہے۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
(ف129) تو جسے وہ چاہے وہی غیب پر مطلع ہو سکتا ہے بغیر اس کے بتائے کوئی غیب نہیں جان سکتا ۔ (واحدی)
(ف130) کتاب مبین سے لوح محفوظ مراد ہے ، اللہ تعالٰی نے '' ماَکَانَ وَ مَایَکُوْنُ '' کے علوم اس میں مکتوب فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment