Friday, 1 July 2011

TWENTY THREE

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # TWENTY THREE :-

(سورة المآئدہ)
  يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۚ وَاِنْ تَسْــــَٔـلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ۭعَفَا اللّٰهُ عَنْهَا  ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ    ١٠١؁

مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (١) سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے۔
MOULANA JONAH GARHE

اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کر دی جاویں گی ف٧ اللہ نے ان سے درگزر کی ہے ف ٨ اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں (ف۲٤۳) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی، اللہ انہیں معاف کرچکا ہے (ف۲٤٤) اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN



TAFSIR


TAFSEER IBAN E KASEER
رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات
 مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ، پھر اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بےفائدہ سوالات مت کیا کرو، کرید میں نہ پرو، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو ، صحیح بخاری شریف میں حصرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بےمثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں ، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا خزافہ ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بےآبروئی ہوتی ، آپ نے فرمایا سنو ماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا ، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا حذافہ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو، جو پوچھو گے، بتاؤں گا، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالٰی آپ سے درگزر فرمائے، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری ، مسند احمد میں ہے کہ جب آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3۔آل عمران:97) نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے ، پس اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی ، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں ، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالٰی نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی ، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالٰی نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالٰی نے کی ہے ، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالٰی نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تم پر حج فرض کر دیا ہے ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہدیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، پاس اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ، عکرمہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ، اللہ تعالٰی فرماتا ہے آیت (وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ) 17۔الاسراء:59) یعنی معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں اور آیت میں ہے آیت (وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا  ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ ۙ اَنَّهَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ) 6۔الانعام:109) بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بےعلم ۔

TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
١٠١۔١ یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کر دی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)


MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٧ پچھلے دو رکوع کا حاصل احکام دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو۔ ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فضول اور دوراز کار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجب ہدایت و بصیرت ہے۔ اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے۔ خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کر دیا وہ حلال یا حرام ہوگئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی۔ مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے۔ اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خواہ مخواہ کھود کرید اور بحث وسوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہو رہا ہے اور تشریع کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائش اجتہاد باقی نہ رہے۔ پھر یہ سخت شرم کی بات ہوگی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں۔ سنت اللہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب کسی معاملہ میں بکثرت سوال اور کھود کرید کی جائے اور خواہ مخواہ شقوق اور احتمالات نکالے جائیں تو ادھر سے تشدید (سختی) بڑھتی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کے سوالات ظاہر کرتے ہیں کہ گویا سائلین کو اپنے نفس پر بھروسہ ہے اور جو حکم ملے گا اس کے اٹھانے کے لئے وہ بہمہ وجوہ تیار ہیں۔ اس قسم کا دعویٰ جو بندہ کے ضعف و افتقار کے مناسب نہیں، مستحق بنا دیتا ہے کہ ادھر سے حکم میں کچھ سختی ہو اور جتنا یہ اپنے کو قابل ظاہر کرتا ہے اسی کے موافق امتحان بھی سخت ہو۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے "ذبح بقرہ" والے قصہ میں ایسا ہی ہوا۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگوں خدا نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص بول اٹھا کیا ہر سال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اگر میں (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا پھر تم ادا نہ کر سکتے، جس چیز میں تم کو "آزاد" چھوڑوں تم بھی مجھ کو چھوڑ دو۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ مسلمانوں میں وہ شخص بڑا مجرم ہے جس کے سوالات کی بدولت ایسی چیز حرام کی گئی جو حرام نہ تھی۔ بہر حال یہ آیت احکام شرعیہ کے باب میں اس طرح کے دورازکار اور بےضرورت سوالات کا دروازہ بند کرتی ہے۔ باقی بعض احادیث میں جو یہ مذکور ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جزئی واقعات کے متعلق لغو سوال کرتے تھے ان کو روکا گیا وہ ہماری تقریر کے مخالف نہیں۔ ہم "لاَ تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ " میں "اشیآء" کو عام رکھتے ہیں جو واقعات و احکام دونوں کو شامل ہے اور "تَسُؤْکُمْ " میں بھی جو برا لگنے کے معنی پر مشتمل ہے تعمیم رکھی جائے۔ حاصل یہ ہوگا کہ نہ احکام کے باب میں فضول سوالات کیا کرو اور نہ واقعات کے سلسلہ میں کیونکہ ممکن ہے جو جواب آئے وہ تم کو ناگوار ہو مثلاً کوئی سخت حکم آیا یا کوئی قید بڑھ گئی۔ یا ایسے واقعہ کا اظہار ہوا جس سے تمہاری فضیحت ہو، یا بیہودہ سوالات پر ڈانٹ بتلائی گئی، یہ سب احتمالات تَسُؤْکُمْ کے تحت میں داخل ہیں۔ باقی ضروری بات پوچھنے یا شبہ ناشی عن دلیل کے رفع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ف ٨ یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی، یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا۔ چنانچہ اسی سے بعض علمائے اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے اور یا یہ کہ ان فضول سوالات سے جو پہلے کر چکے ہو اللہ نے درگزر کی آئندہ احتیاط رکھو۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
((ف243) شان نزول : بعض لوگ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے بےفائدہ سوال کیا کرتے تھے یہ خاطرِ مبارک پر گراں ہوتا تھا ، ایک روز فرمایا کہ جو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرو میں ہر بات کا جواب دوں گا ، ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا انجام کیا ہے ؟ فرمایا جہنم ، دوسرے نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے اس کے اصلی باپ کا نام بتا دیا جس کے نطفہ سے وہ تھا کہ صداقہ ہے باوجود یکہ اس کی ماں کا شوہر اور تھا جس کا یہ شخص بیٹا کہلاتا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو جو ظاہر کی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں ۔ (تفسیرِ احمدی) بخاری و مسلم کی حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ فرماتے ہوئے فرمایا جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ، عبد اللہ بن حُذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا حذافہ پھر فرمایا اور پوچھو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے اٹھ کر اقرارِ ایمان و رسالت کے ساتھ معذرت پیش کی ۔ ابن شہاب کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن حُذافہ کی والدہ نے ان سے شکایت کی اور کہا کہ تو بہت نالائق بیٹا ہے تجھے کیا معلوم کہ زمانہ جاہلیّت کی عورتوں کا کیا حال تھا ، خدا نخواستہ تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی ، اس پر عبد اللہ بن حُذافہ نے کہا کہ اگر حضور کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتا دیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ لوگ بطریق اِستِہزاء اس قِسم کے سوال کیا کرتے تھے ، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ، کوئی پوچھتا میری اونٹنی گم ہو گئی ہے وہ کہاں ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا ، اس پر ایک شخص نے کہا کیا ہر سال فرض ہے ؟ حضرت نے سکوت فرمایا ، سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ احکام حضور کو مُفوَّض ہیں ، جو فرض فرما دیں وہ فرض ہو جائے نہ فرمائیں نہ ہو ۔
(ف244) مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس امر کی شرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا ، حرام وہ ہے جس کو اس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف تو کُلفت میں نہ پڑو ۔ (خازن)

No comments:

Post a Comment