visit 4 rad e razakhaniyat data
huge data ............... www.razakhaniyat.weebly.com
picture data .......... www.deobandcamp.weebly.com
AYAT # FOURTEEN
(سورة التوبہ)
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ۭ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُ وْنَ 65
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی کرتے تھے؟
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں (١)۔
MOULANA JONAH GARHE
اور اگر تو ان سے پوچھے تو وہ کہیں گے ہم تو بات چیت کرتے تھے اور دل لگی ف ٦ تو کہہ کیا اللہ سے اور اس کے حکموں سے اس کے رسول سے تم ٹھٹھے کرتے تھے ف١
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے (ف۱٤۵) تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو،
TARJUMA AHMED RAZA KHAN
TAFSIR
TAFSEER IBAN E KASEER
مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں
ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔ ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عمار نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں۔ پس اس سے جناب باری نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہد کر دیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی رضی اللہ عنہ ورضاء۔ ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہوگئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالٰی نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا۔ جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملاکہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہوگئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی۔
TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٦٥۔١ منافقین آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے، مومنین کا استہزا کرتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے سے گریز نہ کرتے جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے بعض مسلمانوں کو اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو جاتی۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہنسی مذاق کے لئے کیا تمہارے سامنے اللہ اور اس کی آیات و رسول ہی رہ گیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر مقصد تمہارا آپس میں ہنسی مذاق کا ہوتا تو اس میں اللہ، اس کی آیات و رسول درمیان میں کیوں آتے، یہ یقینا تمہارے اس خبث اور نفاق کا اظہار ہے جو آیات الٰہی اور ہمارے پیغمبر کے خلاف تمہارے دلوں میں موجود ہے۔
MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف ٦ "تبوک" میں جاتے ہوئے بعض منافقین نے ازراہ تمسخر کہا۔ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیکھو کہ شام کے محلات اور روم کے شہروں کو فتح کر لینے کا خواب دیکھتا ہے۔ انہوں نے رومیوں کی جنگ کو عربوں کی باہمی جنگ پر قیاس کر رکھا ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ کل ہم سب رومیوں کے سامنے رسیوں میں بندھے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ یہ ہمارے قراء (صحابہ رضی اللہ عنہم) پیٹو، جھوٹے اور نامردے کیا روم کی باقاعدہ فوجوں سے جنگ کریں گے" وغیرذالک من الہفوات۔ اس قسم کے مقولے جو مسلمانوں کو روم سے مرعوب و ہیبت زدہ کرنے اور شکستہ خاطر بنانے کے لیے کہہ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نقل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے کہ حضرت ! ہم کہیں سچ مچ ایسا اعتقاد تھوڑا ہی رکھتے ہیں محض خوش وقتی ودل لگی کے طور پر کچھ کہہ رہے تھے کہ باتوں میں با آسانی سفر کٹ جائے۔
ف١ یعنی کیا دل لگی اور خوش وقتی کا موقع و محل یہ ہے کہ اللہ، رسول اور ان کے احکام کے ساتھ ٹھٹھا کیا جائے؟ خدا اور رسول کا استہزاء اور احکام الٰہیہ کا استخفاف تو وہ چیز ہے کہ اگر محض زبان سے دل لگی کے طور پر کیا جائے، وہ بھی کفر عظیم ہے۔ چہ جائیکہ منافقین کی طرح ازراہ شرارت و بد باطنی ایسی حرکت سرزد ہو۔
MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
(ف145) شان نزول : غزوہ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تمسخُراً کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ، کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔ حضور نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا ہم راستہ کاٹنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے ۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ان کا یہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا گیا اور ان کے لئے یہ فرمایا گیا جو آگے ارشاد ہوتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment