Friday, 1 July 2011

FIFTEEN

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # FIFTEEN :-


(سورة الجن)
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا   26؀ۙ
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا  27؀ۙ

(I)      غیب (کی بات) جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا
(ب‌)     ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے

           

FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ (۱)
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے (١)
MOULANA JONAH GARHE

جاننے والا بھید کا سو نہیں خبر دیتا اپنے بھید کی کسی کو
مگر جو پسند کرلیا کسی رسول کو تو وہ چلاتا ہے اس کے آگے اور پیچھے چوکیدار ف٣
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر (ف٤۸) کسی کو مسلط نہیں کرتا (ف٤۹)
سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (ف۵۰) کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کر دیتا ہے (ف۵۱)
TARJUMA AHMED RAZA KHAN


TAFSIR

TAFSEER IBAN E KASEER
اللہ کے سوا قیامت کب ہو گی کسی کو نہیں معلوم
 اللہ تعالٰی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہدیں کہ قیامت کب ہو گی، اس کا علم مجھے نہیں، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے، اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے، اعرابی کی صورت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے نے با آواز بلند آپ سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا میرے پاس روزے نماز کی اکثرت تو نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے آپ نے فرمایا پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ کو معلوم نہ تھا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے، یہاں بھی آپ کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے، ابو داؤد میں ہے کہ اللہ تعالٰی اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دے دے اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا پانچ سو سال۔ پھر فرماتا ہے اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ   ٢٥٥؁) 2-البقرة:255) یعنی اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لئے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں۔ لیعلم کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یعنی حضرت جبرائیل کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آ جائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کر دی، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے۔ یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کر دی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالٰی جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کر سکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کر دی جیسے فرمایا آیت (وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا) یعنی جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ      11۝) 29-العنكبوت:11)  یعنی اللہ تعالٰی ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے، اسی لئے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہرچیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہ میں ہے۔ الحمد اللہ سورہ جن کی تفسیر ختم ہوئی۔




TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
۲ ٦ ۔۱یعنی اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کر دیا جاتا ہے جن کا تعلق یا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتا ہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ اللہ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہو جاتا۔ لہذا عالم الغیب صرف اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت فرمائی گئی ہے۔
٢٧۔١ یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔

MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف۳    یعنی اپنے بھید کی پوری خبر کسی کو نہیں دیتا۔ ہاں رسولوں کو جس قدر ان کی شان و منصب کے لائق ہو بذریعہ وحی خبر دیتا ہے۔ اس وحی کے ساتھ فرشتوں کے پہرے اور چوکیاں رکھی جاتی ہیں کہ کسی طرف سے شیطان اس میں دخل کرنے نہ پائے۔ اور رسول کا اپنا نفس بھی غلط نہ سمجھے۔ یہی معنی ہیں اس بات کے کہ یغمبروں کو (اپنے علوم و اخبار میں) عصمت حاصل ہے، اوروں کو نہیں۔ انبیاء کی معلومات میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسروں کو معلومات میں کئی طرح کے احتمال ہیں۔ اسی لیے محققین صوفیہ نے فرمایا ہے کہ ولی اپنے کشف کو قرآن و سنت پر عرض کر کے دیکھے اگر ان کے مخالف نہ ہو تو غنیمت سمجھے۔ ورنہ بےتکلف رد کر دے۔ (تنبیہ) اس آیت کی نظیر آلِ عمران میں ہے۔ (وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ) 3۔آل عمران:179) اور کئی سورتوں میں علم غیب کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہیں ہم فوائد میں اس پر مفصل کلام کر چکے ہیں۔ فلیراجع۔

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
ف48) یعنی اپنے غیبِ خاص پر جس کے ساتھ وہ منفرد ہے ۔ (خازن و بیضاوی وغیرہ)
(ف49) یعنی اطلاعِ کامل نہیں دیتا جس سے حقائق کا کشف تام اعلٰی درجہ یقین کے ساتھ حاصل ہو ۔
((ف50) تو انہیں غیوب پر مسلط کرتا ہے اور اطلاعِ کامل اور کشف تام عطا فرماتا ہے اور یہ علمِ غیب ان کے لئے معجزہ ہوتا ہے ، اولیاء کو بھی اگرچہ غیوب پر اطلاع دی جاتی ہے مگر انبیاء کا علم باعتبارِ کشف و انجلاء اولیاء کے علم سے بہت بلند وبالا وارفع و اعلٰی ہے اور اولیاء کے علوم انبیاء ہی کے وساطت اور انہیں کے فیض سے ہوتے ہیں ۔ معتزلہ ایک گمراہ فرقہ ہے وہ اولیاء کے لئے علمِ غیب کا قائل نہیں اس کا خیال باطل اور احادیث کثیرہ کے خلاف ہے اور اس آیت سے ان کا تمسّک صحیح نہیں ۔ بیان مذکورہ بالا میں اس کا اشارہ کردیا گیا ہے سید الرُّسُل خاتمُ الانبیاء محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرتضٰی رسولوں میں سب سے اعلٰی ہیں اللہ تعالٰی نے آپ کو تمام اشیاء کے علوم عطا فرمائے جیسا کہ صحاح کی معتبر احادیث سے ثابت ہے اور یہ آیت حضور کے اور تمام مرتضٰی رسولوں کے لئے غیب کا علم ثابت کرتی ہے ۔
(ف51) فرشتوں کو جو ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔


No comments:

Post a Comment