Friday, 1 July 2011

NINTEEN

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # NINTEEN :-

(سورة النعام)
وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ  75؀

اور ہم اس طرح ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہو جائیں
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI

ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں (١)۔
MOULANA JONAH GARHE

اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابرہیم کو عجائبات آسمانوں اور زمین کے اور تاکہ اس کو یقین آجاوے ف٧
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN

اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی (ف۱٦۲) اور اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے (ف۱٦۳)
TARJUMA AHMED RAZA KHAN

TAFSIR

TAFSEER IBAN E KASEER
ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ
 حضرت عباس کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا ۔ آزر سے مراد بت ہے ۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا ۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی سریہ تھیں ۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں ۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے ۔ سلیمان کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا ۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم ۔ آزَر اور آزُر دونوں قرأت یں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے ۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے ۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود ۔ بعض اسے اتتخذ کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں ۔ گویا حضرت ابراہیم یوں فرماتے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم مدینہ شریف سے باہر نکل گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک اونٹ سوار بہت تیزی سے اپنے اونٹ کو دوڑتا ہوا آ رہا ہے حضور نے فرمایا تمہاری طرف ہی آ رہا ہے اس نے پہنچ کر سلام کیا ہم نے جواب دیا حضور نے ان سے پوچھا کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا اپنے گھر سے، اپنے بال بچوں میں سے، اپنے کنبے قبیلے میں سے ۔ دریافت فرمایا کیا ارادہ ہے؟ کیسے نکلے ہو؟ جواب دیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جستجو میں۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے میں ہی اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے خوش ہو کر کہا یا رسول اللہ مجھے سمجھائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم رکھے اور زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور رمصان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اس نے کہا مجھے سب باتیں منظور ہیں میں سب اقرار کرتا ہوں، اتنے میں ان کے اونٹ کا پاؤں ایک سوراخ میں گر پڑا اور اونٹ ایک دم سے جھٹکالے کر جھک گیا اور وہ اوپر سے گرے اور سر کے بل گرے اور اسی وقت روح پرواز کر گئی حضور نے ان کے گرتے ہی فرمایا کہ دیکھو انہیں سنبھالو اسی وقت حضرت عمار بن یاسر اور حضرت حذیفہ بن یمان اپنے اونٹوں سے کود پڑے اور انہیں اٹھا لیا دیکھا تو روح جسم سے علیحدہ ہو چکی ہے حضور سے کہنے لگے یا رسول اللہ یہ تو فوت ہو گئے آپ نے منہ پھیر لیا پھر ذرا سی دیر میں فرمانے لگے تم نے مجھے منہ موڑتے ہوئے دیکھا ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے دیکھا دو فرشتے آئے تھے اور مرحوم کے منہ میں جنت کے پھول دے رہے تھے اس سے میں نے جان لیا کہ بھوکے فوت ہوئے ہیں ۔ سنو یہ انہیں لوگوں میں سے ہیں جن کی بابت اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہ ملایا ان کے لئے امن و امان ہے اور وہ راہ یافتہ ہیں۔ اجھا اپنے پیارے بھائی کو دفن کرو چنانچہ ہم انہیں پانی کے پاس اٹھا لے گئے غسل دیا خوشبو ملی اور قبر کی طرف جنازہ لے کر چلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے بغلی قبر بناؤ سیدھی نہ بناؤ بغلی قبر ہمارے لئے ہے اور سیدھی ہمارے سوا اوروں کے لئے ہے ، لوگو یہ وہ شخص ہے جس نے عمل بہت ہی کم کیا اور ثواب زیادہ پایا ۔ یہ ایک اعرابی تھے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنے گھر سے اپنے بال بجوں سے اپنے مال سے اپنے کنبے قبیلے سے اس لئے اور صرف اس لئے الگ ہوا ہوں کہ آپ کی ہدایت کو قبول کروں آپ کی سنتوں پر علم کروں آپ کی حدیثیں لوں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گھاس پھوس کھاتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں ۔ آپ مجھ اسلام سکھائیے حضور نے سکھایا اس نے قبول کیا ہم سب ان کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑے تھے اتنے میں جنگلی چوہے کے بل میں ان کے اونٹ کا پاؤں پڑ گیا یہ گر پڑے اور گردن ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا یہ سچ مچ فی الواقع اپنے گھر سے اپنی اہل و عیال سے اور اپنے مال مویشی سے صرف میری تابعداری کی دھن میں نکلا تھا اور وہ اس بات میں بھی سچے تھے کہ وہ میرے پاس نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کا کھانا صرف سبز پتے اور گھاس رہ گیا تھا تم نے ایسے لوگ بھی سنے ہوں گے جو عمل کم کرتے ہیں اور ثواب بہت پاتے ہیں ۔ یہ بزرگ انہی میں سے تھے ۔ تم نے سنا ہو گا کہ باری تعالٰی فرماتا ہے جو ایمان لائیں اور ظلم نہ کریں وہ امن و ہدایت والے ہیں یہ انہی میں سے تھے (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) پھر فرمایا ابراہیم علیہ السلام کو یہ دلیلیں ہم نے سکھائیں جن سے وہ اپنی قوم پر غالب آ گئے جیسے انہوں نے ایک اللہ کے پرستار کا امن اور اس کی ہدایت بیان فرمائی اور خود اللہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی آیت (نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ  ۭاِنَّ رَبَّكَ حَكِيْمٌ عَلِيْمٌ) 6۔الانعام:83) کی یہی ایک قرأت ہے ، اضافت کے ساتھ اور بے اضافت دونوں طرح پڑھا یا گیا ہے جیسے سورۃ یوسف میں ہے اور معنی دونوں قرأت وں کے قریب قریب برابر ہیں ۔ تیرے رب کے اقوال رحمت والے اور اس کے کام بھی حکمت والے ہیں ۔ وہ صحیح راستے والوں کو اور گمراہوں کو بخوبی جانتا ہے جیسے فرمان ہے جن پر تیرے کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا ولیکون کا واؤ زائدہ ہے ۔ جیسے ولتستبین میں اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر ہے یعنی اس لئے کہ وہ عالم اور یقین والے ہو جائیں ، رات کے اندھیرے میں خلیل اللہ ستارے کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ یہ میرا رب ہے جب وہ غروب ہو جاتا ہے تو آپ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ پروردگار نہیں کیونکہ رب دوام والا ہوتا ہے وہ زوال اور انقلاب سے پاک ہوتا ہے ۔ پھر جب چاند چڑھتا ہے تو یہی فرماتے ہیں جب وہ بھی غروب ہو جاتا ہے تو اس سے بھی یکسوئی کر لیتے ہیں ۔ پھر سورج کے طلوع ہونے پر اسے سب سے بڑا پا کر سب سے زیادہ روشن دیکھ کر یہی کہتے ہیں جب وہ بھی ڈھل جاتا ہے تو اللہ کے سوا تمام معبودوں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ میں تو اپنی عبادت کے لئے اللہ کی ذات کو مخصوص کرتا ہوں جس نے ابتداء میں بغیر کسی نمونے کے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا
ہے میں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف لوٹتا ہوں اور میں مشرکوں میں شامل رہنا نہیں چاہتا، مفسرین ان آیتوں کی بابت دو خیال ظاہر کرتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور نظر اور غور و فکر کے تھا دوسرے یہ کہ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ ابن عباس سے دوسری بات ہی مروی ہے ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا ۔ امام محمد بن اسہاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے کہ نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں ، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے ، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے ۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالٰی کی عبادت کریں ۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالٰی سے ان کے بارہ میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی ۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں ۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ ، سورج ، مریخ ، مستری ، زحل ۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے آدنیٰ سے شروع کیا اور اعلی تک لے گئے ۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں ۔ یہ مقررہ جال سے چلتا ۔ مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا ۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے ۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہے پھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟ پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے ، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے ، ان کی محبت سے دور ہوں ۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو ۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی
ارشاد ہے کہ تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے، یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں ۔ حالانکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے آیت (وَلَـقَدْ اٰتَيْنَآ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهٖ عٰلِمِيْنَ) 21۔الانبیآء:51) یعنی ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ) 16۔النحل:120) ابراہیم تو بڑے خلوص والے اللہ کے سچے فرمانبردار تھے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں پسند فرما لیا تھا اور صراط مستقیم کی ہدایت دی تھی دنیا کی بھلائیاں دی تھیں اور آخرت میں بھی انہیں صالح لوگوں میں ملا دیا تھا اب ہم تیری طرف وحی کر رہے ہیں کہ ابراہیم حنیف کے دین کا تابعدار رہ وہ مشرک نہ تھا ، بخاری و مسلم میں ہے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ۔ کتاب اللہ میں ہے آیت (فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا    ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ    ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ) 30۔الروم:30) اللہ تعالٰی نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں اور آیت میں ہے تیرے رب نے آدم کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکال کر انہیں ان کی جانوں پر گواہ کیا کہ کیا میں تمہارا سب کا رب نہیں ہوں؟ سب نے اقرار کیا کہ ہاں بیشک تو ہمارا رب ہے پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمان ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے ۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے ۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے ۔


TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٧٥۔١ملکوت مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبۃ سے رغبوت اور رھبہ سے رھبوت اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)


MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف٧ یعنی جس طرح بت پرستی کی شناعت و قبح ہم نے ابراہیم پر ظاہر کر کے اس کی قوم کو قائل کیا اسی طرح علویات و سفلیات کے نہایت محکم اور عجیب و غریب نظام ترکیبی کی گہرائیوں پر بھی اس کو مطلع کر دیا تاکہ اسے دیکھ کر اللہ تعالٰی کے وجود و وحدانیت وغیرہ پر اور تمام مخلوقات سماوی و ارضی کے محکومانہ عجزو بیچارگی پر استدلال اور اپنی قوم کے عقیدے کواکب پرستی و ہیاکل سازی کو علیٰ وجہ البصیرت رد کر سکے اور خود بھی حق الیقین کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو بلاشبہ عالم کا یہ اکمل و احکم اور بہترین نظم و نسق ہی ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر بالبداہت اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس عظیم الشان مشین کا بنانے اور چلانے والا ' اس کے پرزوں کو نہایت مضبوط ترتیب و سلیقہ سے جوڑنے والا اور ہزاروں لاکھوں برس سے ایک ہی انداز پر اس کی حفاظت کرنے والا ' بڑا زبردست حکیم و قدیر صانع ہے جس کے حکیمانہ تصرف اور نفوذ واقتدار سے مشین کا کوئی چھوٹا بڑا پرزہ باہر نہیں جا سکتا۔ یہ کام یونہی بخت و اتفاق یا بےشعور طبیعت یا اندھے بہرے مادہ سے نہیں ہو سکتا۔ یورپ کا مشہورو معروف حکیم نیوٹن کہتا ہے کہ کواکب کی حرکات حالیہ ممکن نہیں کہ محض عام قوت جاذبہ کے فعل کا نتیجہ ہوں یہ قوت جاذبہ تو کواکب کو شمس کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس لئے کواکب کو سورج کے گرد حرکت دینے والا ضروری ہے کہ خدائی ہاتھ ہو۔ جو باوجود قوت جاذبہ کی عام کشش کے ان کو اپنے مدارت پر قائم رکھ سکے۔ کوئی سبب طبعی ایسا نہیں بتلایا جا سکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کر دیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگاتے وقت ہمیشہ معین مدارت پر اور ایک خاص جہت ہی میں حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبعی نہیں جس سے ہم ان منظم و محفوظ نوامیس کو وابستہ کر سکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم و علیم کے ماتحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی کمیات سے پورا پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کس مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی۔ اسی نے اپنے زبردست اندازے سے کواکب اور شمس کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں کہ ایک کا دوسرے سے تصادم و تزاحم نہ ہو اور عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہو جائے۔ ہر چھوٹا بڑا سیارہ نہایت مضبوط نظام کے ماتحت معین وقت پر طلوع و غروب ہوتا ہے جب کوئی سیارہ غروب ہو کر دنیا کو اپنے اس فیض و تاثیر سے محروم کر دے جو طلوع کے وقت حاصل تھا تو نہ اس ستارہ کی اور نہ کسی مخلوق کی قدرت میں ہے کہ ایک منٹ کے لئے اسے واپس لے آئے یا غروب سے روک دے یہ رب العالمین ہی کی شان ہے کہ کسی وقت بھی کسی قسم کے افاضہ سے عاجز نہیں (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ 38؀ۭ  وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ   39؀  لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ   40؀ ) 36۔یس:38-39-40) یہ علویات کا حال ہے تو سفلیات کا اسی سے اندازہ کر لو یہ ہی تکوینی عجائب اور ملکوت السمٰوٰات و الارض ہیں جن کے دیکھنے سے ابراہیم کی زبان پر ( لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ) 6۔الانعام:76) اور (اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ) 6۔الانعام:79) بےساختہ جاری ہوگیا جو اگلی آیات میں مذکور ہے) کما تدل علی الفاء فی قول تعالٰی(فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا  ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّيْ  ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ) 6۔الانعام:76)

MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
(ف162) یعنی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دین میں بِینائی عطا فرمائی ایسے ہی انہیں آسمانوں اور زمین کے ملک دکھاتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا اس سے آسمانوں اور زمین کی خَلق مراد ہے ۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ آیات سمٰوات و ارض مراد ہیں ، یہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو صَخرہ (پتھر) پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے لئے سماوات مکشوف کئے گئے یہاں تک کہ آپ نے عرش و کرسی اور آسمانوں کے تمام عجائب اور جنت میں اپنے مقام کو معائنہ فرمایا ، آپ کے لئے زمین کشف فرما دی گئی یہاں تک کہ آپ نے سب سے نیچے کی زمین تک نظر کی اور زمینوں کے تمام عجائب دیکھے ۔ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ رویت بچشم باطن تھی یا بچشم سر ۔ (درِّ منثور و خازن وغیرہ)
(ف163) کیونکہ ہر ظاہر و مخفی چیز ان کے سامنے کر دی گئی اور خَلق کے اعمال میں سے کچھ بھی ان سے نہ چھپا رہا ۔

No comments:

Post a Comment