visit 4 rad e razakhaniyat data
huge data ............... www.razakhaniyat.weebly.com
picture data .......... www.deobandcamp.weebly.com
AYAT # SEVEN :-
(سورة النعام)
وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38
(اور زمین میں جو چلنے پھرنیوالا (حیوان) یا دو پروں سے اُڑنے والا جانور ہے انکی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔ ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کسی چیز (کے لکھنے) میں کوتاہی نہیں کی۔ پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائینگے۔
FATHY MOHAMMAD JHALANDRI
اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں (١) ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (٢) پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے (٣)۔
MOULANA JONAH GARHE
اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح ہم نے نہیں چھوڑی لکھنے میں کوئی چیز پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے ف ٦
MOULANA MEHMOOD UL HASSAN
اور نہیں کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پرند کہ اپنے پروں پر اڑتا ہے مگر تم جیسی امتیں (ف۸۷) ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا (ف۸۸) پھر اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے (ف۸۹)
TARJUMA AHMED RAZA KHAN
TAFSIR
TAFSEER IBAN E KASEER
معجزات کے عدم اظہار کی حکمت
کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے ؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ ، فرماتا ہے کہ قدرت الٰہی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہیہ کا تقاضا یہ نہیں ۔ اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں، چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک امت ، انسان ایک امت، جنات ایک امت وغیرہ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں ، سب پر اللہ کا علم محیط ہے ، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ) 11۔ہود:6) یعنی جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں سب کی روزیاں اللہ کے ذمہ ہیں وہی ان کے جیتے جی کے ٹھکانے کو اور مرنے کے بعد سونپے جانے کے مقام کو بخوبی جانتا ہے اس کے پاس لوح محفوظ میں یہ سب کچھ درج بھی ہے ، ان کے نام، ان کی گنتی ، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں اور مقام پر ارشاد ہے آیت (وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ٤اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ڮ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ) 29۔العنکبوت:60) بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے ، ابو یعلی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ کو بہت خیال ہوا اور سام عراق یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں؟ یمن و الا قاصد جب واپس آیا تو آپ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور حضرت فاروق اعظم کے سامنے ڈال دیں آپ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ۔ ان تمام امتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے ، پھر فرماتا ہے سب کا حشر اللہ کی طرف ہے یعنی سب کو مت ہے ، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے ، ایک قول تو یہ ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے جیسے فرمایا آیت (وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ) 81۔التکویر:5) مسند احمد میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ جواب ملا کہ میں کیا جانوں؟ فرمایا لیکن اللہ تعالٰی جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا ، ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے ، مسند کی اور روایت میں ہے کہ بےسینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی ۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی ۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہو گا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا تم مٹی ہو جاؤ ۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے ۔ پھر کافروں کی مال بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں ۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں ۔ جیسے سورہ بقرہ کی ابتداء میں ہے کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو آگ سلگائے جب آس پاس کی چیزیں اس پر روشن ہو جائیں اس وقت آگ بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں رہ جائے اور کچھ نہ دیکھ سکے ۔ ایسے لوگ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ راہ راست کی طرف لوٹ نہیں سکتے اور آیت میں ہے آیت (اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ) 24۔النور:40) یعنی مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جس کی موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر سے ابر چھایا ہو اندھیروں پر اندھیریاں ہوں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آ سکے ۔ جسے قدرت نے نور نہیں بخشا وہ بےنور ہے ۔ پھر فرمایا ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کر دے ۔
TAFSEER MOULANA SALAH UDDIN YOSUF
٣٨۔١ یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔
٣٨۔٢ کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہرچیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ) 16۔ النحل:89) (ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہرچیز کا بیان ہے)۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔
٣٨۔٣ یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا حساب کتاب بھی ہوگا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا، کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔(صحیح مسلم ) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
MOULANA SHABEER AHMED USMANI
ف ٦ ان آیات میں بعض حکمتوں پر متنبہ کیا گیا ہے جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ یعنی تمام حیوانات خواہ زمین پر رینگتے ہوں یا ہوا میں اڑتے ہوں، وہ بھی انسانوں کی طرح ایک امت ہیں۔ ان میں سے ہر نوع کو حق تعالٰی نے ایک خاص وضع اور فطرت پر پیدا کیا جو ان کے معین خواص و افعال کے دائرہ میں کام کرتی ہے۔ کوئی جانور اپنے افعال و حرکات کے محدود حلقہ سے جو قدرت نے باعتبار اسکی فطرت و استعداد کے مشخص کر دئیے ہیں، ایک قدم باہر نہیں نکال سکتا۔ چنانچہ ابتدائے آفرنیش سے آج تک کسی حیوان نے اپنی نوع کے محدود دائرہ عمل میں کسی طرح کی ترقی نہیں کی۔ اسی طرح ہرچیز کی استعداد و فطرت کو خیال کر لیجئے۔ حق تعالٰی کے علم قدیم اور لوح محفوظ میں تمام انواع و اجناس کی تدبیر و تربیت کے اصول و فروغ منضبط ہیں۔ کوئی چیز نہ اس زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد اس مکمل انضباط و انتظام سے باہر جا سکتی ہے۔ انسان جنس حیوان میں "با اختیار اور ترقی کن" حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل وتمیز کی موجودگی نے اسکے "نظام تکوینی اور قانون حیات " کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے کہ اب اسے حیوان کہتے بھی شرم آتی ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے، سننے اور پوچھنے سے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوۃ فکریہ سے ان کو ترتیب دیکر "حیات جدید" کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے 'نافع و ضار کے پہچاننے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر، اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے، اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دئیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کردیں، انسان کی فطری آزادی اور اسکے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے، بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو انکا دکھلانا بیکار ہے کیونکہ ان میں بھی وہی غیر ناشی عن الدلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیر فرمائشی نشانات میں کئے جا چکے۔
MOULANA NAEEM MURADABADI (BRALVI)
((ف87) یعنی تمام جاندار خواہ وہ بہائم ہو یا درندے یا پرند ، تمہاری مثل اُمّتیں ہیں ۔ یہ مماثلت جمیع وجوہ سے تو ہے نہیں بعض سے ہے ، ان وجوہ کے بیان میں بعض مفسرین نے فرمایا کہ حیوانات تمھاری طرح اللہ کو پہچانتے ، واحد جانتے ، اس کی تسبیح پڑھتے ، عبادت کرتے ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ وہ مخلوق ہونے میں تمہاری مثل ہیں ۔ بعض نے کہا کہ وہ انسان کی طرح باہمی الفت رکھتے اور ایک دوسرے سے تفہیم و تَفَہُّم کرتے ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ روزی طلب کرنے ، ہلاکت سے بچنے ، نر مادہ کی امتیاز رکھنے میں تمہاری مثل ہیں ۔ بعض نے کہا کہ پیدا ہونے ، مرنے ، مرنے کے بعد حساب کے لئے اٹھنے میں تمہاری مثل ہیں ۔
(ف88) یعنی جملہ علوم اور تمام '' مَاکَانَ وَ مَا یَکُوْنُ '' کا اس میں بیان ہے اور جمیع اشیاء کا علم اس میں ہے ، اس کتاب سے یا قرآن کریم مراد ہے یا لوح محفوظ ۔ (جمل وغیرہ)
(ف89) اور تمام دَوَابّ و طیور کا حساب ہو گا ، اس کے بعد وہ خاک کر دیئے جائیں گے ۔
No comments:
Post a Comment